حسانُ العصر حضرت الحاج محمد علی ظہوریؒ کے نعت لکھنے اور پڑھنے کا انداز سب سے مُنفرد اور جُداگانہ تھا اور وہ گِرہ بندی پر مکمل عبور رکھتے تھے۔آپ کے لکھے اور پڑھے اُردو اور پنجابی کلام کو مُلک و بیرونِ مُلک بے پناہ شہرت ملی جو آج بھی زُبان زدِعام ہے اور کوئی محفل ایسی نہیں جہاں آپؒ کا کلام نہ پڑھا جاتا ہو جیسے
جب مسجدِ نبویؐ کے مینار نظر آئے اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے ~
تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے جسے دیکھنی ہو جنت وہ مدینہ دیکھ آئے ~
تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے جسے دیکھنی ہو جنت وہ مدینہ دیکھ آئے ~
وہ کیسا سماں ہو گا کیسی وہ گھڑی ہو گی جب پہلی نظر اُنکےؐ روضے پہ پڑی ہوگی ~
فلک کے نظارو زمیں کی بہارو سب عیدیں مناؤ حضورؐ آگئے ہیں ~
پیکرِ دلرُبا بن کے آیا رُوحِ ارض و سماں بن کے آیا ~
یہ آرزو نہیں کہ دُعائیں ہزار دو پڑھ کے نبیؐ کی نعت لحد میں اُتار دو ~
یا رسولؐ اللہ تیرے در کی فضاؤں کو سلام گُنبدِ خضرٰی کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں کو سلام ~
جبکہ پنجابی میں لِکھی مشہور نعتوں میں سے چند یہ ہیں
تیرا کھاواں تے تیرے گیت گاواں یا رسول ؐاللہ ~
لب کے لیاواں کتھوں سوہنا تیرےؐ نال دا ~
چلے جس ویلے پُرے دی ہوا ~
مرحبا مرحبا آگئے مُصطفٰےؐجدیاں راہواں بڑے ویکھدے رہ گئے ~
کونین دے والی ؐ داگھر بار بڑا سوہنا ~
اوڑک نوں تے ٹُر جانا کوئی کار تے کر جاواں ~
زمیناں آسماناں ساریاں خوشیاں منائیاں نیں ~
اور ایسی کئی مشہور نعتیں شامل ہیں جبکہ آپؒ کے کُل چار نعتیہ مجموعے توصیف، نوائے ظہوری(اُردو کلام) کِتھے تیری ثناء، صفتاں سوہنے رسولؐ دیاں (پنجابی کلام)پر مُشتمل شائع ہو چُکے ہیں۔ان میں سے پنجابی کے مجموعہ کلام ”کِتھے تیری ثناء“ کو 1993 ء کی قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر اول صدارتی انعام مل چُکا ہے۔اسکے علاوہ ”ثناخوانِ رسولؐ“ کے نام سے آپ ؒ کی شخصیت سے متعلق ایک کتاب جسے نشاط احمد شاہ ساقی صاحب نے مُرتب کیا اور جو کسی بھی نعت گو شاعر و نعت خواں کی زندگی سے مُتعلق معلومات پر مشتمل پہلی کتاب ہے شائع ہو چُکی ہے جبکہ غیر شائع شُدہ کُتب میں سوانح حضرت حسانؓ بن ثابت، مضرابِ عقیدت(مناقب و قصائد)،نصابِ نعت خوانی،میری مُلاقاتیں (روحانی و ادبی شخصیات کے تذکرے)،زیارات (سفرنامہ) شامل ہیں۔یہ تمام کُتب ابھی نامُکمل اور زیرِ ترتیب ہیں۔