آ پؒ نے فنِ نعت خوانی کو نوجوان نسل میں نہ صرف مُنتقل کیا بلکہ ان تربیت یافتہ نوجوانوں کو عوام الناس میں روشناس کرانے کے لئے پہلے اپنی تنظیم  ” مجلسِ حسان“ اُسکے بعد تربیتی ادارے ”ایوانِ حسان“ کی بُنیاد رکھی اور پھر اپنے ذاتی وسائل سے موضع رائیاں میں ڈھائی کنال کے وراثتی رقبے پر ”مرکزِ توصیف“  قائم کیا جہاں ماہانہ و سالانہ محافلِ نعت کا انعقاد کر کے اپنے ان تربیت یافتہ شاگردوں کو عوام کے سامنے نعت خوانی کا موقع فراہم کرتے تا کے اُن کی کارکردگی کا پتا چلے، اُن میں مزید اعتماد پیداہو اور وہ کسی بھی سطح کے مُقابلہء نعت خوانی کے لئے بھر پُور تیاری کے ساتھ شرکت کر سکیں اور وہاں سے سُرخرو ہو کر لوٹیں۔

حسانُ العصر قبلہ الحاج محمد علی ظہوری ؒ  کے تربیت یافتہ شاگردوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو نہ صرف مُلک بلکہ بیرونِ مُلک شہرت کی بُلندیوں تک پہنچے جن میں سرِفہرست قاری زُبید رسولؒ شہید(ہارون آباد) ہیں اُنکے بعد اختر حُسین قُریشی(لاہور)،عبدالستار نیازی مرحوم (فیصل آباد)،سلیم صابری مرحوم (چیچہ وطنی)،آغا گوہر علی تمغۂ حُسنِ کارکردگی (حیدرآباد) نُور محمد جرال(امریکہ)، شوکت نقشبندی،حاجی رنگ الٰہی، محمدامین قصوری (قصور) عبدُالمصطفٰی سعیدی (ڈیرہ نواب صاحب)شامل ہیں اور ان تمام شاگردوں کا شما ر سینئرز و اولین شاگردوں میں ہوتا ہے

جبکہ بعد میں آنے والوں میں محمد اکرم قلندری، محمد رمضان شکوری،قاری افضال انجم،مُختار صدیقی،حافظ خلیل ُسلطان،حافظ   کریم سُلطان،عابد رؤف قادری،سید آصف علی ظہوری، محمد افضل نوشاہی، سرور حُسین نقشبندی، نشاط احمد شاہ ساقی،غُلام نبی طاہر، احمد علی دانش،محمدمقصود، دین محمد،محمد رضوان،میاں وقاص عابد اور دیگر کئی نام شامل ہیں ان میں سے اکثر نے فنِ نعت خوانی میں خوب شہرت حاصل کی۔

 ان میں سے صرف ایک شاگر د سید آصف علی کو قبلہ حسانُ العصر نے یہ اجازت دی تھی کہ وہ  اپنے نام کے ساتھ”ظہوری“ لکھ سکتے ہیں جبکہ اور کسی شاگرد کو آپؒ نے اپنی زندگی میں اپنا نام لگانے کی اجازت نہیں دی۔آج کئی لوگ جن میں سے اکثر جو شاگرد بھی نہیں بلا اجازت اپنے نام کے ساتھ ”ظہوری“ لگاتے ہیں جو انتہائی قابلِ افسوس بات ہے۔عوامی سطح پر ایسے لوگو ں کی پذیرائی ہونے کی بجائے انکی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔