عاشقِ رسولؐ نعت گو شاعرو نعت خواں حضرت الحاج محمد علی ظہوریؒ جب اپنی اس آخری عظیم الشان حاضری کے بعد وطن واپس تشریف لائے تو ابھی چند ہی روز گُزرے تھے کہ اُنکی طبیعت اچانک انتہائی ناساز ہوگئی۔آپؒ کو علاج کیلئے فوراً شریف میڈیکل سٹی لیجایا گیا جہاں آپؒ کو بہترین طبی سہولیات دی گئیں لیکن چند روز زیرِ علاج رہنے کے بعد  11اگست 1999 ء بروز بُدھ کی صبح دس بجے کے قریب طبیعت جانبر نہ ہو سکی اور آپ ؒ اپنے اہل و عیال اور لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر اس جہانِ فانی سے وصال فرما گئے۔اسطرح نعت کا ایک عظیم اور سُنہری دور  آپ ؒ کے رُخصت ہونے سے اختتام پذیر ہوگیا۔

چونکہ آپؒ کی یہ وصیت تھی کہ آپؒ کا مدفن والدین کے قدموں کی جانب ہو لہٰذا اس پر عمل کرتے ہوئے مرکز ِ توصیف موضع رائیاں رائیونڈ روڈ لاہور جہاں آپ ؒ محافلِ نعت کا انعقاد کرتے تھے اور جو جگہ آپ نے اسٹیج کیلئے مُختص کی ہوئی تھی ٹھیک اُسی جگہ پر آپ ؒ کی تدفین کی گئی اور جو آپؒ کے والدین کے مزار کے بلکل قدموں کی جانب واقع ہے۔ اُس دن سورج گرہن تھا اور شدید حبس اور گرمی کا موسم تھا لیکن عین اُس وقت جب آپؒ کو لحد میں اُتارا جا رہا تھا اچانک ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہوگئی جس کے گواہ کئی لوگ آج بھی اُس منظر کو یاد کرتے ہیں اور آپ ؒ کا لکھا وہ شعرانکی  زُبان پر یوں آ جا تا ہے کہ

      ”لو چلا ہوں میں لحد میں میرے مُصطفٰیؐ سے کہہ د و     کے ہوا تیری گلی کی مُجھے چھوڑنے کو آئے“

آج اُس جگہ پر آپؒ کے دونوں صاحبزادوں جناب فیضان ظہوری اور جناب حسان ظہوری نےبغیر کسی فنڈ یا چندے کے صرف اور صرف اپنے ذاتی وسائل سے قبلہ حسانُ العصر الحاج محمد علی ظہوری ؒ کا عظیم الشان مزار تعمیر کیا ہے جسکی تکمیل میں اُنھیں اٹھارہ سال کا عرصہ لگا یہ اُنکی اپنے والدِ مرحوم کے ساتھ دیرینہ مُحبت و عقیدت کا عاجزانہ اظہار ہے۔