قیامِ پاکستان کے بعد جب آپ پٹوار سکول رائیونڈ میں زیرِ تعلیم تھے تو انہی ایام میں آپ نے لاہور کی عظیم روحانی شخصیت حضرت مہر محمد صوبہؒ اور قصور کے ممتازشیخ ِ طریقت حضرت خواجہ دائم الحضوریؒ کے سلسلہ سے منسلک پیرِ طریقت فنا فی الرسول ؐ حضرت میاں ظہور الدین نقشبندیؒ آستانہ عالیہ سوڈیوال شریف کے حلقہء ارادت سے وابستگی اختیار کر لی۔ حضرت میاں صاحب ؒ کا شمار اپنے دور کے جید عُلما میں ہوتا تھا۔آپ ایم۔اے (عربی)اور ایم۔اے (فارسی) کی ڈگریوں کے حامل ہونے کے علاوہ شُعبۂ طب میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے اور آپ کے علاج سے کئی بے اولاد جوڑوں کو اللہ تعالیٰ نے اولادِ نرینہ کی نعمت سے نوازا۔

حضرت میاں صاحبؒ کا یہ معمول تھا کہ انکے ہاں با قاعدگی کے ساتھ ماہانہ محافلِ نعت کا انعقاد ہوتا اس کے علاوہ وہ ہر سال اپنے شیخ حضرت مہر محمد صوبہؒ کی یاد میں سالانہ عُرس کی تقریب بھی منعقد کرتے اور بطور خاص ان محافل میں حضرت  مولانا جامی ؒ،حضرت مولانا رومیؒ، اعلٰحضرت احمد رضا خان بریلویؒ اور بیدم وارثی ؒ کا نعتیہ کلام بڑے ذوق وشوق اور عقیدت کے ساتھ سنتے۔ حضرت میاں صاحب ؒ جید عالم ہونے کیساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے نعت گو شاعر بھی تھے۔آپ ؒ کے نعتیہ کلام کے تین مجموعے ”گُلدستۂ ظہوریہ، گُلشنِ مُر تضائیہ اور نوائے ظہور“ شائع ہو کر حلقۂ ارباب ِ تصوف سے خراج ِ تحسین حاصل کر چُکے ہیں۔

ان محافل میں شرکت کرنے سے قبلہ ظہوری صاحبؒ کے اندر حقیقی معنوں میں نعت گوئی کاشعور بیدار ہوا اور رفتہ رفتہ آپ نے باقاعدہ نعتیں لکھنا شروع کر دیں جنھیں وہ اپنے شیخِ کامل حضرت میاں صاحبؒ کے رو برو پڑھا بھی کرتے۔آ پ کے لِکھے مناقب و قصائد کو حضرت میاں صاحب خصوصی طور پر سنا کرتے اور پسند فرماتے بلکہ اعزاز کے طور پر اُنہوں نے آپ کو اپنے نام کی نسبت  سے ”ظہوری“کا لقب عطا کیاجو آپ کے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔اس لقب کو قبلہ حسانُ العصر نےاپنے تمام اُردو اور پنجابی کے نعتیہ کلام میں بطورِ تخلص استعمال کیا اور بعد میں یہی نام کی صورت میں پوری دنیا میں آپ کی وجہ ء شناخت بھی بنا۔